حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جامعۃ الزہرا ایران کی پروفیسر فاطمہ میسگریان نے ہمدان میں حوزہ نیوز ایجنسی کے خبر نگار کے ساتھ ایک انٹرویو میں خواتین کی ترقی میں انقلاب اسلامی کے کردار کے بارے میں کہاکہ اسلامی انقلاب سے پہلے کے دور کو گھٹن کا دور کہا جانا چاہیے۔ اور بین الاقوامی سطح پر انقلاب اسلامی کی فتح کے بعد کے دور میں ہم تعلیم، سائنس، تحقیق، کھیل اور دیگر شعبوں میں خواتین کی ترقی کا مشاہدہ کر رہے ہیں جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا: طاغوت کے دور میں صرف 35 فیصد خواتین لکھنا پڑھنا جانتی تھیں، لیکن آج جب ہم انقلاب اسلامی کی پانچویں دہائی سے گزر رہے ہیں تو یہ عدد 90فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے ۔
فاطمہ میسگیرین نے کہا: آج ایرانی خواتین مذہبی حجاب کے ساتھ بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں میں شرکت کرتی ہیں اور خواتین نے بڑے اعزازات حاصل کئے ہیں، لیکن طاغوت کے دور میں خواتین کی ترقی اور ان کی صلاحیتوں کے ابھار کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی، کم از کم کھیلوں میں تو ہرگز نہیں۔
انہوں نے مزید کہا: "ہم نے کئی بار رہبر معظم انقلاب کی جانب سے کھیلوں میں خواتین کی سرگرمیوں اور بین الاقوامی مقابلوں میں ان کی شرکت کے لیے حوصلہ افزائی کا مشاہدہ کیا ہے، جو کہ رہبر معظم کی نگاہ میں اس مسئلے کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔"
حوزہ علمیہ خواہران کی استاد نے کہا: خواتین کی ترقی کے حوالے سے مختلف شعبوں میں متعدد اعدادوشمار پیش کیے گئے ہیں جو کہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں لیکن 1957 کے انقلاب کا اہم تحفہ خواتین کی خود اعتمادی میں اضافہ ہے۔ جو کہ صحیفہ امام میں اوربار بار مختلف مواقع امام خمینیؒ نے ذکر کیا ہے۔
انہوں نےاس نکتہ کی جانب اشارہ کیا کہ ان 40 سالوں کے دوران، انقلاب اسلامی سے دشمنی کی بنیاد پر، خواتین کے مسئلے کو لے کر اعتراضات ہوئے ہیں کہ انقلاب اسلامی نے خواتین کے لیے کیا کیا ہے؟ اگرچہ ان کا ہدف انقلاب اسلامی کو نابود کرنا ہے، لیکن ہمیں کہنا چاہیے کہ انقلاب اسلامی نےبین الاقوامی سطح پر، ثقافت، کھیل، معیشت اور معاشرت کے مختلف شعبوں میں خواتین کی ترقی کے لیے میدان فراہم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، اور اس کے شواہد بھی پائے جاتے ہیں۔ اب مغربی معاشرے ہمیں جواب دیں کہ آپ نے خواتین کے شعبے میں کیا کام کیا ہے؟
فاطمہ میسگیرین نے بیان کیا کہ انقلاب اسلامی کے بعد مختلف شعبوں میں خواتین کے حوالے سے عظیم اقدامات اٹھائے گئے ، جب کہ غربی معاشرے میں عورت کو ایک برے وجود کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے، یعنی ایک ایسی ہستی جو کائنات میں برائیوں کا سرچشمہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا: انقلاب اسلامی کے ظہور کے ساتھ ہی امام خمینی (رہ) واضح طور پر اعلان کرتے ہیں کہ ہم خواتین کو خیر کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ خواتین نیکی کا مظہر ہیں۔ یہ بیان ان خواتین کے لیے بہت قیمتی ہے جو ۱۹۷۸ سے پہلے مایوس کن شخصیت کی حامل تھیں ۔
میسگیرین نے کہا کہ انقلاب اسلامی کا سب سے بنیادی کام خواتین میں اعتماد بحال کرنا ہے اور اگر ہم انقلاب اسلامی کے بعد مختلف شعبوں میں خواتین کی کامیابیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ان کے پیچھے خواتین کا اہم کردار ہے۔ وہ خود اعتمادی تک پہنچ چکی ہیں اور یہ خود اعتمادی اسلامی حکومت کے سائے میں ہوئی ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی معاشرے نے مختلف شعبوں میں خواتین کی ترقی کے لیے ایک بنیاد فراہم کی ہے، اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج خواتین اسلام کے نقطہ نظر اور ہدف کے قریب تر ہیں، لہذا ہمیں خواتین کو اس زاویے سے دیکھنا چاہیے۔
انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہاکہ امام خمینی (رہ) کا یہ کلام ہمیشہ میرے لیے حوصلہ افزا ہے، جنہوں نے فرمایا: "عورت معاشرے کا نصف ہے، باقی آدھا معاشرہ اس کے دامن میں تعلیم پاتا ہے"۔ اسی مناسبت سے، اگر ہم پیشہ ور، پرعزم اور بااثر افراد کا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں، تو ہمیں ہر طرح سے خواتین کی ترقی کے لیے زمینہ فراہم کرنا ہوگا۔